تاریخی پس منظر
دینی مدارس ‘‘ جیسا کہ اس کے الفاظ سے عیاں ہے کہ اس سے مراد وہ مراکز علم و دانش ہیں جہاں دینی تعلیم وتربیت کے جوہر سے دلوں کو بہرہ مند کیا جاتا ہے اور نور ایمانی سے لبریز و منور کرنے کا عمل مبارک انجام پاتا ہے ۔ دینی مدارس کے اعزاز کا اہم اور اعظم سبب ’’صفہ و اصحاب صفہ‘‘ کے ساتھ ان کی نسبت جمیلہ ہے اور ’’صفہ‘‘ وہ پہلی اسلامی درسگاہ ہے جس کے منتظم ومعلم آقائے دوجہاں ، معلم انس وجان حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم کی ذات والاصفات ہے، اس درسگاہ کے طلباء ’’صحابیت ‘‘کے اعلیٰ وا رفع مقام اور تاج عزت سے سرفراز ہیں ۔ دنیا کی اس پہلی اسلامی یونیورسٹی کا محل وقوع’’ مسجد نبوی‘‘ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی عطر بینر فضاؤں سے معطر ہے۔.
دین اسلام اور اس کی تعلیمات حریت فکر اور خودداری ایسے اوصاف جمیلہ سے سر شار ہونے کی وجہ سے ہمیشہ آزاد فضا کی متقاضی رہی ہیں اور اپنی سر شت وطبیعت کی وجہ سے دینی مراکز نے سرکاری سر پرستی کو کبھی بھی قبول نہیں کیا البتہ بعض خوش بخت مسلمان حکمرانوں نے ان اداروں کی آزادی وخود مختاری میں مداخلت کئے بغیر ان کی مدد وتعاون کو اپنے لئے اعزازسمجھا اور اس مبنی براخلاص انداز میں مدارس کی سر پرستی یامعاونت کی کہ مدارس کے ذمہ داران نے بطیبِ خاطر قبول کیا۔
ہیئت ترکیبیہ، اہداف
مدارس ہمیشہ مساجد میں قائم رہے اور عامۃ المسلمین نے حصول علمِ دین کی خاطر دور دراز کا سفر طے کر کے آنے والے طلباء کو خوش آمدید کہا اور ان کیلئے قیام و طعام کا انتظام بھی کیا ، جب کہ اساتذہ نے نہ صرف اپنے دیگر معمولات میں سے وقت نکال کر ان طلباء کو فی سبیل اﷲ علم کی دولت سے مالا مال کیا بلکہ ان کی ضروریات کا بھی خاص خیال رکھا۔ زمانہ آگے بڑھتا رہا اور ماحول میں تبدیلی آتی رہی تو دینی تعلیم کے تقاضے بھی بدلتے رہے جس کے نتیجے میں یہ نظام تعلیم’’ مساجد ‘‘ سے’’ مدارس ‘‘ میں منتقل ہوا ۔ نصاب تعلیم وتربیت اور کلاسوں کا اجراء ہوا اور نظام الاوقات مقرر ہونے کی وجہ سے اساتذہ کی پابندئ وقت کی وجہ سے ان کیلئے’’ قوت لا یموت ‘‘ کی صورت میں اعزازیہ کا انتظام بھی ہونے لگا ۔
تنظیم المدارس کا قیام
دینی علوم و فنون اور نصاب تعلیم کی ترتیب مدارس کی حد تک منضبط ضرور ہوئی لیکن ہر ادارے کا طریق کار اور نظام امتحان انفرادیت کا مظہر ہونے کی وجہ سے اجتماعیت کا خواب ابھی شرمندہ تعبیر ہونا باقی تھا۔چنانچہ پیر ۳ شعبان المعظم ۱۳۷۹ھ یکم فروری ۱۹۶۰ء حضرت غزالی زماں علامہ سید احمد سعید کاظمی کے زیر سرپرستی آپ کے تربیت یافتہ و دست راست حضرت مولانا غلام جہانیاں معینی رحمھما اﷲکی سعی جمیلہ سے جامعہ معینیہ ، ڈیرہ غازی خان میں مدارس اہل سنت کے مہتممین و منتظمین کا اہم اجلاس منعقد ہوا ، جس میں مربوط وجامع نصاب تعلیم اور یکساں نظام تعلیم کیلئے دینی مدارس کی تنظیم کے قیام کی منظوری دی گئی ۔ دینی مدارس کے اس نیٹ ورک کا ’’ تنظیم المدارس الاسلامیہ پاکستان ‘‘ نام رکھا گیا ۔ تنظیم المدارس کی مجلس شوریٰ کا پہلا با ضابطہ اجلاس ہفتہ ، اتوار ۵۔۶ شوال المکرم ۱۳۷۹ھ ۲۔۳ اپریل ۱۹۶۰ء بمقام جامعہ نعیمیہ علامہ اقبال روڈ ، گڑہی شاہو لاہور میں ہوا ۔
تشکیل نصاب تعلیم
اجلاس میں مدارس اہل سنت کیلئے جامع نصاب مرتب کرنے اور اس کے نفاذ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ۲۵ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ یکے بعد دیگرے کئی اجلاسوں کے بعد جامع نصاب مرتب ہوا جسے مئی ۱۹۶۰ء سے نافذ کر دیا گیا ۔ ایک عرصہ تک یہ سلسلہ تنظیمی مراحل طے کرتا رہا ، غزالی زماں رازی دوراں امام اہل سنت حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمہ اﷲ نے نہ صرف اس تنظیم کوجدید اسلوب پر قائم کیابلکہ اس کیلئے تگ ودو میں بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی، خود پرچہ جات تیار کرنا ، ان کو مدارس تک پہنچانا ،امتحان لے کر نتیجہ تیار کرنا، اور سند عطا کرنا، پھر ان تمام امور کے اخراجات کا خود بندوبست کرنا ،اس مرد مومن کے اخلاص اور درد دل کا واضح ثبوت ہے اور یقینا آج ہزاروں مدارس کو نظم و ضبط کی لڑی میں پرونے کیلئے اس اخلاص کا فیضان شامل ہے ۔
نشأۃ ثانیہ
ء۱۹۶۰ء میں قائم ہونیوالی ’’تنظیم المدارس الاسلامیہ ‘‘اگرچہ یہ تنظیمی سلسلہ بوجوہ ملک گیر سطح تک نہ بڑہ سکا تاہم اس نے مدارس اہلسنت کے مہتممین اور اکابرین اہل سنت کی فکر کو اس عظیم مقصد کیلئے مجتمع ہونے کی بنیاد فراہم کردی جس کے نتیجے میں ۱۴ سال بعد تنظیم المدارس کی نشاۃ ثانیہ کیلئے ۱۴ ذوالحجہ ۱۳۹۳ھ ؍ ۹ جنوری ۱۹۷۴ بروز بدھ جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور میں اکابر علماء اہل سنت کا عظیم الشان اجتماع منعقد ہوا اور غور وخوض کے بعد اس تنظیم کو تنظیم المدارس (اہلسنت ) پاکستان کے نام سے دوبارہ فعال بنانے کا فیصلہ ہوا اور ابتدائی طور پر تین دفاتر کی منظوری دی گئی۔
مرکز ی دفتر جو لاہور میں قائم ہوا اور صوبوں کی سطح پر دو دفتر ایک صوبائی دفتر صوبہ پنجاب، سرحد اور آزاد کشمیر کیلئے راولپنڈی میں اور دوسرا صوبائی دفتر صوبہ سندھ ، بلوچستان کیلئے کراچی میں قائم کیا گیا۔ مرکز کیلئے تین عہدیدار صدر ،ناظم اعلیٰ اور خازن جب کہ صوبوں کیلئے ناظم اور صوبائی خازن مقرر کئے گئے ۔
جب تنظیم المدارس کا دائرہ عمل بڑھا اور مدارس کے الحاق میں اضافہ ہوا تو صوبائی دفاتر کی تعداد دو سے چار کر دی گئی چاروں صوبوں کیلئے الگ الگ صوبائی دفتر اور عہدیداران کی منظوری دی گئی البتہ آزاد کشمیر کو پنجاب کے ساتھ رکھا گیا ۔ جب مزید مدارس کا الحاق ہوا اور امتحانی سلسلہ وسیع سے وسیع تر ہوا تو آزادکشمیر کیلئے بھی الگ دفتر کی منظوری دی گئی۔
شعبہ امتحانات
ابتدائی عرصہ (سات، آٹھ سال )تک امتحانات کو مرکز کنٹرول کرتا رہا لیکن اس سلسلے کو مزید منظم کرنے کیلئے 1981ء میں الگ شعبہ امتحانات قائم کیا گیا اور ایک خود مختار امتحانی بورڈ کی منظوری دی گئی ، علامہ مولانا غلام محمد سیالوی کا نام ناظم امتحان مقرر ہوئے۔ ابتدائی طور پر شعبہ امتحان کا دفتر شمس العلوم جامعہ رضویہ نارتھ ناظم آباد کراچی میں قائم کیا گیا جو اب لاہور مرکزی سیکرٹریٹ میں منتقل ہو چکا ہے ۔
تنظیم المدارس دو مجلسوں پر مشتمل ہے ایک مجلس شوریٰ اور دوسری مجلس عاملہ کہلاتی ہے ۔ تمام ملحقہ مدارس کے مہتممین یا ان کے نمائندگان مجلس شوریٰ کے ارکان کہلاتے ہیں جب کہ مجلس عاملہ مرکزی اور صوبائی عہدیداران امتحانی بورڈ کے تمام ممبران کے علاوہ چاروں صوبوں اور آزادکشمیر سے نمائندہ علماء کی ایک مخصوص تعداد ہے ۔ مجلس عاملہ کا ہر رکن ذاتی طور پر اس میں شامل ہوتا ہے اس میں نمائندگی نہیں ہو سکتی۔
مجلس شوریٰ کا اجلاس تین سال بعد ہوتا ہے جس میں عہدیداران کا انتخاب بھی عمل میں لایا جاتا ہے جب کہ مجلس عاملہ کا اجلاس حسب ضرورت کسی بھی وقت بلایا جا سکتا ہے ۔( تفصیل کیلئے تنظیم المدارس کے دستور میں صفحہ ۶ ملاحظہ ہو) علاوہ ازیں تنظیم المدارس کے نصاب کا وقتاً فوقتاً جائزہ لینے اور بہتری کی طرف پیش رفت کیلئے ایک نصابی کمیٹی بھی مقرر ہے ۔
اہداف
اگرچہ تنظیم المدارس کے قیام کا بنیادی مقصد مدارس کے تعلیمی اور امتحانی نظام کو مربوط کرنا ہے لیکن اس کے علاوہ مدارس کے مسائل کو حل کرنا ، اور مدارس سے متعلق حکومتی اقدامات کا جائزہ لے کر اپنے قومی اور ملی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے صائب فیصلہ کرنا اور عصر حاضر کے مطابق مسائل کی تحقیق کرنا، غیر مسلم (مستشرقین) کی طرف سے دین حق کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے کا مثبت جواب دینا ،تصنیف وتالیف اور نشرو اشاعت کو فروغ دینا ، طلباء کو قلم وقرطاس کی دنیا میں لانے کیلئے ان کی خصوصی تربیت کرنا اور اس طرح کے دیگر اہم علمی منصوبے تنظیم المدارس کے اغراض ومقاصد میں اہمیت کے حامل ہیں۔
اھدا ف کی طرف پیش قدمی
تنظیم المدارس اہل سنت پاکستان نے اپنے اہدا ف کی طرف کس قدر توجہ دی اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی ہوتا ہے کہ جنوری ۱۹۷۴ء یعنی ذوالحجہ ۱۳۹۳ھ میں تنظیم کی نشأۃ ثانیہ ، اسی سال شعبان میں ملک بھر میں درجہ حدیث (درجہ عالمیہ) کا امتحان لیا گیا اور اس سے اگلے سال ۱۹۷۵ء کے امتحان میں دیگر پرچوں کے ساتھ تحقیقی مقالہ بھی شامل کر دیا گیا تاکہ طلباء کو تحقیق کی تربیت بھی حاصل ہو ۔
ابھی تنظیم المدارس کی تشکیل جدید کو ایک سال کا عرصہ بھی نہ ہوا تھا کہ مدارس کو حکومتی شکنجے میں جکڑنے کیلئے حنیف رامے وزیر اعلیٰ پنجاب کی صدارت میں منصوبہ بندی ہو ئی ۔لیکن تنظیم المدارس کے متحرک فعال اور حالات پر گہری نظر والے ناظم اعلیٰ … شیخ الحدیث استاذ العلماء علامہ مفتی محمد عبدالقیوم ہزاری رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ جو ایک متحرک شخصیت کا نام تھا… نے فوراً حالات سے آگاہی کیلئے شیخ الفقہ علامہ حسن الدین ہاشمی زید مجدہ کی خدمات حاصل کیں اور آپ نے حکومتی منصوبوں کی مکمل تفصیل معلوم کیں، صدر تنظیم حضرت قبلہ سید ابوالبرکات سید احمد شاہ صاحب ، شارح بخاری علامہ سیدمحمود احمد رضوی، مفکر اسلام علامہ محمد حسین نعیمی اور لاہور میں موجوددیگر اکابر علماء سے مشاورت کے بعد حضرت ناظم اعلیٰ نے مجلس عاملہ کااجلاس فوری طور پر طلب کیااور بحث وتمحیص کے بعد اکابر نے فیصلہ کیا کہ مدارس کی آزادی کو ہر صورت میں برقرارکھا جائے گا اور مدارس کی آزادی کو کبھی داؤ پر نہیں لگایا جائے گا لیکن حکومت کی کسی بھی مبنی بر اصلاح تجویز سے اعراض کی راہ بھی اختیارنہیں کی جائے گی۔